فروری ۲۰۲۰ء: سید آل عمران سے راقم کی آخری ملاقات۔
تحریر: سید سبطین شاہ
آج (جمعرات) پچیس جون ۲۰۲۰ء کی شام ایک ایسا غم لے کر آئی ہے کہ جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سید آل عمران جو اپنا تعارف خود تھے، اس شام کو ہم سے رخصت ہوگئے۔
والدہ محترمہ کی بیماری قلب وجہ سے آج شام بروقت خبروں کا مشاہدہ نہیں کر سکا لیکن جونہی تھوڑی سے فراغت ہوئی تو اسلام آباد راولپنڈی ویلفئرسوسائٹی ناروے کے کچھ دوستوں کے فیس بک ٹائم لائن پر نظر پڑی اور اس انتہائی غمگین خبر کو دیکھا۔ راقم کی سب سے پہلی نظر اوسلو میں متحرک شخصیت چوہدری اسماعیل سرور کے فیس بک پیج پر پڑی۔ انہوں نے اپنے ساتھ آل عمران کی ایک یادگار فوٹو پوسٹ کی ہوئی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ وہ ان کی صحت یابی کے حوالے سے کوئی اپیل کررہے ہوں۔ جب خبر کو غور سے پڑھنا شروع کیا تو ایک گہرا اضطراب طاری ہوگیا۔ اس کے بعد کئی دیگر دوستوں اصغرشاہد، جاوید اقبال، مرزا محمد انور بیگ، چوہدری عجب خان اور دیگر متعدد افراد نے بھی اسی طرح کی افسردہ خبریں اپنے اپنے ٹائمز لائن پر پوسٹ کی ہوئی تھیں۔
کچھ دوستوں نے یہ لکھا کہ سید آل عمران کی وفات کی وجہ سے پوٹھوار ایک نامور شاعر و ادیب سے محروم ہوگیا البتہ راقم یہ سمجھتا ہے کہ پورا پاکستان ایک عظیم دانشور، شاعر و ادیب سے محروم ہوگیا ہے۔
مرحوم آل عمران صاحب سے راقم کی پہلی ملاقات ۱۹۹۶ء میں کوئٹہ میں ہوئی تھی۔ وہ براستہ کوئٹہ۔تافتان زیارات مقامات مقدسہ کے لئے ایران جارہے تھے اور راقم بھی اسی مقصد کے لیے عازم سفر تھا۔ رفتہ رفتہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور مرحوم سے ساتھ ملاقاتیں اکثر اسلام آباد کے ادبی و ثقافتی پروگراموں میں ہوا کرتی تھیں۔
راقم بطور صحافی اور سید آل عمران بحیثیت نوجوان شاعر و ادیب ان پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔ مرحوم سے راقم کی آخری ملاقات اس سال فروری میں راولپنڈی میں ان کے گھر پر ہوئی جہاں پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال اورناروے کی ایک ممتاز کاروباری شخصیت میر ناصر بھی مرحوم کی طرف سے مدعو تھے۔ مرحوم نے مہمانوں کی پرتکلف تواضع کی اور ناروے کے بارے میں اپنی تصنیف بھی اپنے دستخطوں کے ساتھ فرداً فرداً پیش کی۔اس ملاقات سے چند دن قبل مرحوم آل عمران کی مادری زبانوں کے اسلام ٓاباد میں منعقد ہونے والے سالانہ میلے کے دوران راقم سے پوْٹھواری، ہندکو، پنجابی سمیت مختلف مادری زبانوں کے بارے میں گفتگو ہوئی جسے بعد ازاں چینل ۶ نے نشر کیا۔
ناروے میں انکے قیام کے دوران سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری راشد اعوان نے ان کی خوب پذیرائی کی۔ وہ اصغر شاہد کے بہنوئی حاجی احمد اعوان کے گھر پر ٹھہرے۔ اپنے قیام دوران وہ کئی لوگوں سے ملے اور ان کی یادیں آج بھی ان لوگوں کے دلوں پر نقش ہیں۔ حتیٰ ان کا حافظہ بہت زیادہ تھا۔ ناروے میں یوم پاکستان کے پروگرام میں ان کی ملاقات ناروے کی فعال پاکستانی سماجی شخصیت اور پاکستان یونین ناروے کے سیکرٹری اطلاعات ملک محمد پرویز سے ہوئی اور اس بار فروری میں یعنی ڈیرھ دوسال بعد جب ملک پرویز نے راقم کو پاکستان میں فون پر بتایاکہ جب بھی سید آل عمران سے ملاقات ہوتو انہیں میرا سلام دیں۔ راقم نے جب یہ پیغام سید صاحب تک پہنچایا تو وہ فوراً ملک صاحب کو پہچان گئے اور کہاکہ میرا بھی ملک صاحب کو سلام دے دیں۔
اگرچہ سید آل عمران پہلے ہی شاعر، ادیب اور لکھاری تھےلیکن سابق صدر مشرف کے دورمیں جب الیکٹرانیک میڈیا سامنے آیا تو سید آل عمران نے بحیثیت پروگرام اینکر ٹی وی پر اپنا لوہا منوایا اور خاص طور پر کے ٹو ٹی وی پر پوٹھواری زبان میں ان کا پروگرام جی کراں بہت ہی مشہور ہوا۔ اس کے علاوہ وہ بعد ازاں لاہورٹی وی اور چینل ۶ سے بھی منسلک رہے۔ ان کی شیرین زبان اور پوٹھواری زبان کی مٹھاس نے اس پروگرام میں ہمیشہ چاشنی پیدا کی۔
سید آل عمران نے تقریبا دوسال قبل اسلام آباد راولپنڈی ویلفیئرسوسائٹی ناروے کی دعوت پر ناروے کا بھی دورہ کیا۔ انہوں نے تیئس مارچ یوم پاکستان کے حوالے سے سوسائٹی کے زیراہتمام اوسلو میں منعقد ہونے والے پروگرام میں نظامت کی فرائض انجام دیئے جہاں سابق وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف بھی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ پروگرام کے میزبان اور سوسائٹی کے سابق صدر مرحوم مرزا محمد ذوالفقار اس پروگرام کی کامیابی پر بہت خوش تھے اور انہوں نے پروگرام کے دوسرے دن راقم سے فون پر سید آل عمران کی بات بھی کرائی۔ راقم یورپ کے ایک دوسرے ملک میں مصروفیت کی وجہ سے اس پروگرام میں شریک نہیں ہوسکا تھا لیکن راقم بہت خوش تھا کہ سید آل عمران نے بلاخر ناروے کا دورہ کیا کیونکہ بہت سے ہمارے مشترکہ دوستوں کی دلی خواہش تھی کہ وہ ناروے کا دورہ کریں۔ ناروے سے واپسی پر مرحوم نے انتہائی قلیل مدت میں ناروے کے بارے میں کتاب بھی لکھی۔ اس کتاب کا نسخہ جناب اصغر شاہد جو ہمارے مشترکہ دوست ہیں، نے راقم کو اوسلو میں پیش کیا اور دوسرا نسخہ راقم نے مرحوم سے فروری میں ان کے گھر پر ہونے والی آخری ملاقات میں ان سے خود وصول کیا۔
مرحوم سید آل عمران سے راقم کی دوستی کے علاوہ ایک اور قرابت داری بھی تھی۔ یہ رشتہ راقم کے سسر خالو جناب سید سخاوت شاہ صاحب آف گجرخان کے توسط سے ہے جو مرحوم کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ مرحوم محبت و امن کا پیکر تھے اور وہ جہاں گئے اور جس سے بھی ملے، محبت و امن کی خوشبو بکھیرتے رہے۔
آخر پر اتنا ضرور کہوں گا کہ سید آل عمران بہت کم عرصے میں علاقائی اور قومی ادب، ثقافت و صحافت کو بہت کچھ دے گئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے معاشرے میں مختلف گروہوں اور مسالک کو قریب لانے کے لیے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ کوٹ سیداں گجرخان میں ان کے نماز جنازہ کے دوران ہرطبقہ کے لوگ اشکبار تھے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا کی مخلوق سے پیار کرتے تھے اور لوگ بھی ان سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ ان کا خلا پر کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ آئندہ آنے والے لوگ کوشش تو بہت کریں گے لیکن کوئی دوسرا آل عمران نہیں بن سکتا۔ اب شہر شہر، قریہ قریہ ڈھونڈنے سے بھی آل عمران نہیں ملے گا۔
اے بچھڑنے والے دوست و عزیز آل عمران ہم آپ کو پرنم آنکھوں کے ساتھ رب کریم کے سپرد کرتے ہیں، آپ کو پاک پیغمبر حضرت محمد (ص) و پاک آل محمد (ع) کی شفاعت نصیب ہو، آپ روز محشر اولیائے اللہ کے ساتھ اٹھائے جائیں، آپ کا شمار محمد و آل محمد (ص) سے محبت کرنے والوں میں ہو۔ الوداع آل عمران، الوداع۔
اللہ تعالیٰ بصدقہ محمد (ص) و آل پاک محمد (ع) آپ کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے، امین